میں سوچتا تھا کبھی کبھی کہ یہ محبت کیا ہے یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب میں تازہ تازہ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ لیا تو میں سوچتا تھا کہ محبت کرنے والے لوگ کتنے بے عقل ہوتے ہیں جو اپنا ٹائم محبت کے پیچھے ضائع کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے وقت کو صحیح طریقے سے کیوں نہیں استعمال کرتے ۔ اسی سوچ اور اسی جذبے کے ساتھ میں اپنی پہلی کلاس میں گیا لیکن خوش قسمتی سمجھیے یا بدقسمتی سمجھیے ہماری کلاس میں کوئی اتنا جاذب نظر اور پرکشش نہیں تھا کہ جسے دیکھ کے بندہ کا دل اس کی طرف راغب ہو جائے لیکن اس اثنا میں ایک شہزادی آئی اتنی خوبصورت کہ اس کی گول گول انکھیں، لمبا قد، اور کامل جسم کے ابھار، خوبصورت مسکراہٹ جس پہ کوئی بھی فدا ہو جائے اور ہمدردانہ رویہ میرے سینے کو چیر کر میرے دل میں سما گیا۔ میں یہ سوچتا رہا کہ میرے دل کے ساتھ کیا ہوا میرے دل نے مجھے کیوں دھوکہ دیا اور یہ میرے دماغ کے خلاف کیوں گیا۔ اسی کشمکش میں سوچتا رہا کہ اس سے محبت کی بات کروں یا نہ کروں اس تعلیم کے عروج پر کیا اس طرح کی باتیں زیب دیتی ہیں۔ ہمت کی, بات چیت شروع کی ,پہلے تو دو تین ماہ ہمت ہی نہیں پڑی اس سے ہمکلام ہونے کی ، اس سوچ میں گم رہا کہ شاید اس کی نظر ہمارے دل پر پڑ جائے لیکن ایسا نہ ہوا ۔ ایک دن ہمت کی، دل پہ ہاتھ رکھا اور اظہار محبت کر ڈالا۔ دماغ نے کہا یہ کیا کہہ دیا دل نے کہا جو مجھے صحیح لگا میں نے کر ڈالا۔ محبت بندے کو عروج بخشتی ہے اور کبھی کبھی زوال بھی۔ محبت انسان کو خوشی بھی دیتی ہے اور کبھی کبھی تکلیف بھی۔ اگر انسان کے بس میں ہو تو وہ محبت نہ کرے لیکن یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کا دل چیر کے نکلتا ہے۔ دل چیز کا مطلب محبت جتنی بھی گہری ہو کہیں نہ کہیں آپ کو تکلیف بھی گہری دیتی ہے یہ انسان کے ازمائش ہے کہ اسے کسی سے محبت ہو جائے اور وہ بندہ اس کے پاس نہ ہو اور پاس آنے کی کوئی امید بھی نہ ہو کچھ ایسی ہی ہے ہماری محبت۔ ہماری محبت نہ کہیں یہ کہیں میری محبت! ایک طرفہ محبت! دیکھتے ہیں اس کہانی کا انجام کیا ہوتا ہے. اس محبت میں ہماری محبت خدا سے بڑھتی ہے یا یہ محبت ہماری ہمیں خدا کے نزدیک کرتی ہے یا ہمیں مجنوں کرتی ہے