کیا لڑکی انسان نہیں !!میں اس موضوع پر بہت وقت سے لکھنا چاہتی تھی۔جیسے جیسے زندگی گزر رہی ہے دنیا کے بہت سے چہرے کھل کر سامنے آرہے ہیں ان چند اک سالوں میں جو چیز سب سے زیادہ میری توجہ کا مرکز رہی وہ ہے لڑکیوں کا اس معاشرے میں مقام۔ہر انسان کا اپنا نظریہ ہے ہر کوئی میری باتوں سے متفق ہو یہ ضروری نہیں۔۔ہمارے معاشرے میں ستر فیصد خاندان ابھی بھی ایسے ہیں جو بیٹیوں کو وہ مقام نہیں دیتے جو انکا حق ہے۔لڑکی اگر پڑھنا چاہتی ہو تو رواج کے نام پر بی اے کرنے کے بعد ہی اسکی شادی کردی جاتی ہے وہ پڑھنا چاہتی تھی اس بات سے کسی کو غرض نہیں ہمارے معاشرے کے لوگ یہ سمجھنے کو بالکل تیار نہیں ہے کہ عورت کا پڑھا لکھا ہونا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا بہت ضروری ہے اور جس لڑکی کو پڑھنے یا نوکری کرنے کی اجازت دے دی جائے اسے ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ایک لڑکے یا ایک مرد کو پیش نہیں آتیں۔کیوں لڑکیوں کو مرد کی طرح ایک عام انسان سمجھ کر اسے اتنی آزادی نہیں دی جاتی کہ وہ ذہنی ہراساں ہوئے بغیر گھر سے باہر نکل سکیں۔کیوں اسے اس قدر ٹارچر کیا جاتا ہے کہ اسے اپنے عورت ہونے پر دکھ ہو۔یہ وہ سب باتیں ہیں جن کا ہر اک لڑکی کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔پچھلے کچھ دنوں سے پرینک کالز کا سلسلہ عام ہے وہ آپکا نمبر کہیں سے نکالتے ہیں آپکے گھر کال کرتے ہیں اور جھوٹ پر مبنی کہانیاں بنتے ہیں گھر میں موجود بہو بہن بیٹی کے بارے میں مختلف باتیں کرتے اور تکے لگاتے ہیں اگر تکا نہ لگے تو بار بار کال کرکے آپکو ذہنی طور پر اتنا تھکا دیتے ہیں کہ آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن اسکی خوفناک صورت ایک اور بھی ہے اگر غلطی سے ان پرینک کالز کرنے والوں کا تکا لگ جائے تو ۔۔۔۔۔صرف دو منٹ کے لیے سوچیں اس گھر میں موجود اس لڑکی کی زندگی میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں گی وہ لڑکی جسے معلوم تک نہیں کیا ہوا کیوں ہو مگر اس سے اسکی آزادی چھین لی جائے گی اسکے خواب چکنا چور ہو جائیں کچھ اوباش لوگوں گی اس غلیظ حرکت کی وجہ سے ایک لڑکی کے پر کاٹ دیے جائیں گے جس سے اس نے ابھی اڑان بھرنی تھی اسکی زندگی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ جائی گی ۔۔۔یہاں پر میرا ایک سوال ان والدین سے ہے کیا آپ کو اپنے گھر کی عورت پر اعتبار نہیں ؟کیا اپنی تربیت پر اعتبار نہیں؟اپنے گھر کی عورتوں پر اعتبار کرنا سیکھیں انہیں پنکھ لگاتے ہیں تو ان پر اعتبار کریں اور انہیں اوڑان اڑنے دیں۔جب ماں ایک بیٹی کو آٹا گوندھنا کھانا بنانا سکھاتی ہے ایک باپ اسے انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے تو کیوں اسے یہ نہیں بتایا جاتا کہ بیٹا تم نے ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنا ہے تمھیں بہت سی مشکلات پیش آئیں گی تمھیں کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی لیکن تم حوصلہ نہ ہارنا کیوں ماں باپ اسے یہ نہیں کہتے کہ بیٹی اگر تمھیں کسی استاد سے غیر ضروری بات کرنے پر امتحان میں نمبر زیادہ دینے کا کہا جائے تو ہم تمھارے کم نمبرز پر خوش ہیں مگر اپنا وقار قائم رکھنا کیوں اسے یہ نہیں کہا جاتا کہ بیٹا تمھیں مشکلات کا سامنا کرنا آنا چاہئے تمھارے بابا اور تمھارے بھائی ہمیشہ تمھارے ساتھ ہوں گے لیکن اگر کبھی ایسا ہو کہ وہ تمھارے ساتھ نہ ہوں تو تمھارا حوصلہ نہ ٹوٹے یہ دنیا ظالم ہے تمھیں خود اپنا خیال رکھنا پڑے گا اور تمھیں اپنا خیال رکھنا آنا چاہیئے۔جب ایک بیٹی کو سسرال میں رشتے نبھانے کے بارے میں اور ہر طرح کا کمپرومائز کرنے کا کہا جاتا ہے تو اسے یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ بیٹی گھر بسانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا لیکن اگر تم پر تمھارا شوہر ہاتھ اٹھائے یا تمھارے ذہنی مریضہ بننے کی نوبت تک بات آن پہنچے تو واپس گھر آجانا تم ہم پر بوجھ نہیں ہو ۔آجکل کے دور میں جتنا ضروری برتن دھونا کھانا بننا ہے اتنا ہی ضروری خودمختار ہونا ہے۔۔خدارا اپنی بیٹی کو اتنا پڑھائیں یا پڑھا نہیں سکتے تو ایسا ہنر دیں کہ مشکل حالات میں وہ کسی پر بوجھ نہ بنے۔اپنی بیٹیوں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ واقعی رحمت ہیں زحمت نہیں انہیں انسان ہونے کا درجہ دیں انہیں اتنی آزادی دیں کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرسکے ان کے پنکھ نہ کاٹیں انہیں اڑنے دیں اور ان پر اعتبار کرنا سیکھیں۔۔اور پیاری لڑکیوں ان لوگوں کا مان سلامت رکھنا جو تم پر اعتبار کرتے ہیں ہمیشہ سیدھی اوڑان اڑنا اور اپنے گھونسلے کا خیال رکھنا۔۔اور یہ یاد رکھنا کہ تم مضبوط ہو اپنے بابا اور اپنے بھائی کا مان سلامت رکھتے ہوئے آگے بڑھتی رہنا اس بات کی پرواہ نہ کرنا کہ کون کیا کہتا ہے۔خود کو مظبوط بناؤ کیونکہ اس معاشرے میں اس قدر گندگی پھیل چکی ہے کہ اسے صاف کرنا اتنا آسان نہیں بس خود کو اس گندگی سے بچاتے ہوئے آگے قدم رکھتی جاؤ اور اپنے بابا کو ایک دن یہ ثابت کرکے دکھا دو کہ انہوں نے تمھارے پنکھ نہ کاٹ کر کوئی غلطی نہیں کی ۔۔۔۔۔نائلہ نثار(گروپ ممبر کی تحریر)