گزشتہ روز میں نے ایک پرائیویٹ گروپ بنایا اور مقصد اس کا اس پروفائل کی بھیڑ بھاڑ سے دور ایک ایسی کمیونٹی تشکیل دینا تھا جہاں لوگ کھل کر بات کر سکیں اور اختلاف رائے کا احترام ہو۔ اس پرؤفائل پر بہت بھیڑ جمع ہو چکی ہے۔ سونے پہ سہاگا کوئی تحریر شئیر ہو کر وائرل ہو جائے تو نجانے کہاں کہاں سے کون کون سے جتھے ڈانگ لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ میرا مقصد بس یہ ہے کہ میچور لوگوں کا گروپ ہو جن کی کوئی سیاسی، مذہبی و مسلکی یا کسی قسم کی عصبیت نہ ہو۔ اس گروپ میں ارادہ تو یہ تھا کہ کم سے کم لوگ ہوں کیونکہ عقل کو ہاتھ مارنا مشکل ہو چکا ہے ہر کسی کا اپنا بابا ہے جو اس نے آگے رکھ دینا ہوتا ہے۔ میں نے اس کے رولز بہت واضح لکھے ہیں اور مجھے لگتا تھا کہ ان کو پڑھ کر کم ہی تعداد رجوع کرے گی مگر گروپ ممبران کی تعداد دو ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ البتہ یہ سب دو ہزار افراد سکروٹنی سے ایڈ ہوئے ہیں۔ اس گروپ کا معیار بہت سادہ ہے۔اول، وہی شخص ایڈ کیا ہے یا کروں گا جو اپنے حقیقی نام اور حقیقی پروفائل کے ساتھ ہے۔ جعلی یا فرضی یا شاعرانہ ناموں والی پرؤفائلز ایڈ نہیں ہوں گی۔ ہر شخص اپنی پہچان کے ساتھ ہو گا تاکہ وہ جو بھی بات کرے اس کی پروفائل سے سب کو معلوم ہو کہ کون ہے۔ جن لوگوں نے شناخت چھپا رکھی ہے یا پروفائل لاکڈ کر رکھی ہے ان سے معذرت چاہوں گا۔ اور بڑی دنیا بھری ہوئی ہے کسی اور جانب رجوع کر لیں۔ دوم، گروپ میں تیس سال سے اوپر کے لوگ ایڈ ہوں گے۔ نوجوانوں سے معذرت مگر یہ ایج گروپ ضروری ہے۔ میرے بس میں ہوتا تو اس پرؤفائل پر بھی اٹھارہ تا تیس سال کے ایج گروپ کو فالو کرنے سے روک دیتا مگر فیسبک فالورز کی سیٹنگ میں ایسی کوئی آپشن نہیں دیتی۔ میں نے یہ جانا ہے کہ نوجوانی میں اکثریت کا ہارمونل بیلنس متوازن نہیں ہوا کرتا اور وہ ہائپر ہوتے ہیں۔ یہ ان کا قصور نہیں عمر ہی ایسی ہوتی ہے۔ انسان وقت، حالات اور تجربات کے ساتھ پراگریس کرتا ہے اور تیس سال کے بعد میچور ہونے لگتا ہے۔ اس وقت تک وہ بہت کچھ دیکھ، سن اور سہہ چکا ہوتا ہے۔ اگر میچور نہ بھی ہو سکے تب بھی اس کی ذات میں کچھ ٹھہراؤ آنے لگتا ہے یا کم از کم وہ نقطہ نظر کے اختلاف پر جلد مشتعل یا ہائپر نہیں ہوتا۔ نوجوانی پہاڑی دریا سی ہوتی ہے۔ تیز، شوریدہ اور بپھری ہوئی۔ تیس پینتیس سال تک یہ دریا میدانی علاقے میں پہنچ چکا ہوتا ہے اور روانی میں ٹھہراؤ آ چکا ہوتا ہے۔ یا کم از کم وہ برداشت یا اگنور کرنے کا ہنر سیکھ چکا ہوتا ہے۔ میں نہ کوئی ٹیچر ہوں نہ وہ گروپ کلاس روم ہے نہ ہی میں نے سماج سدھار کا از خود ٹھیکہ لیا ہے کہ سٹوڈنٹس کو سمجھاؤں۔ نہ اتنا مغز رہا ہے مجھ میں نہ توانائی۔ آپ سیکھیں خود سے اور وقت سے بڑا کوئی استاد نہیں ہوتا۔ میں اپنی منشاء کی دنیا تو نہیں بنا سکتا کہ وہ اس قدر لسانی، صوبائی، مسلکی و سیاسی تقسیم کا شکار ہو چکی ہے کہ اب دھاگے آپس میں مل کر گُنجل بن چکے ہیں مگر ایک کمیونٹی ڈویلپ کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں جہاں کم سے کم بات کہی جائے سنی جائے اور سنائی جائے۔ تنقید ہو تو دلیل یا منطق سے ہو۔اختلاف رائے ہو تو کسی بنیاد پر ہو اور بنیاد بھی واضح ہو۔ کوئی مسترد کرے تو حوالے سے کرے اور قبول کرے تو اپنی خود کی عقل سے پرکھ کر کرے۔ جو اوئے توئے کی سوچ، گالمانہ پتھراؤ اور اپنے سیاسی، مذہبی و روحانی لیڈران کا بے جا دفاع یا بے جا حمایت سے مبرا ہو۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس جماعت سے ہیں، مسلمان ہیں کہ غیر مسلم، کونسے برآنڈ یا مسلک کے مسلمان ہیں، کس خطے ، صوبے یا ریاست سے تعلق رکھتے ہیں، کونسی زبان مادری ہے، اور کون آپ کا پیر ہے۔ میں بس انسان کو انسان دیکھنے کا خواہاں ہو۔ وہ ذرا ہر کس و ناکس سے دور پرائیویٹ کمیونٹی ہو گی جس کے ممبران پر مجھے اتنا تو یقین ہو گا کہ یہ آؤٹ آف سلیبس آئے سوالات نہیں ہیں۔ اور جو میرے مزاج سے آشنا بھی ہوں گے۔ چونکہ وہاں سکروٹنی سے گزر کر احباب ایڈ ہوں گے اس واسطے وہاں کسی کو میں بلاک نہیں کروں گا کیونکہ جب خود تسلی کر کے ایڈ کیے تو پھر کسی کو بلاک کرنا میری اپنی انسلٹ ہے۔یوں بھی مجھے یقین ہے کہ میچور لوگ اپنا مدعا سلیقے سے بیان کرنے کا ہنر رکھتے ہیں لہذا یہ نوبت ہی کیوں آئے گی۔ یہاں چونکہ نہ میں نے کسی کو ایڈ کیا نہ بلایا لوگ اپنے تئیں خود جمع ہوتے گئے اس واسطے کسی کی نامناسب بات یا بدتمیزی پر میں بلاک کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ جو خود آیا اور خود ہی ننگا ناچنے لگا تو اس کا اور کوئی حل نہیں۔ اس پروفائل پر آپ شاعری ملاحظہ کریں ، لطیفے سن لینا، ہی ہی ہا ہا چلتی رہے گی، کہیں سفر پر نکلا تو وہاں کی ویڈیوز مل جایا کریں گی اور آپ سب ہیپی رہیں۔ میں اپنے خیالات یا سوچ کے اظہار کو صرف گروپ تک محدود کر رہا ہوں۔ مسائل پر لکھنا میرا کتھارسس ہوتا ہے اور یہاں بیچ چوراہے ہر قسم کی اور انڈر ایج جنتا کے بیچ یہ کتھارسس یا تھیسس لکھ کر سوال گندم جواب چنا وصول پاتا ہوں۔ ویسے بھی سماج میں بسنے والے لوگوں کی غالب اکثریت انٹرٹینمنٹ مانگتی ہے انلائٹمنٹ نہیں۔اقدار، معاشرت، اخلاقیات،شرافت، امارت کے جو سنہری سکے اماں نے میری مٹھی میں اپنی وراثت سمجھ کر تھمائے تھے وہ جب اس معاشرے میں ہوش سنبھالتے، سفر کرتے، رویوں کو جھیلتے ، سماجی پرتوں کو الٹتے بڑا ہوا تو معلوم ہوا کہ میں ایسے بازار میں کھڑا ہوں جہاں کرنسی بدل چکی ہے۔آج تک جو لکھا وہ برائے دل لگی لکھا۔ بھڑاس نکالنے کو الفاظ تراشے، بڑھئی کا کام سیکھا۔ خون جلانے کو مضمون بنے، کھڈی چلاتے بنت کبھی اچھی لگ جاتی تو کبھی گرہیں صاف نظر آتیں۔ دھاگے سے دھاگا جوڑنا یا جملے سے جملہ ملانا آسان کام نہیں تھا۔سوشل میڈیا تو گلی کا تھڑا ہے جہاں ہر راہ چلتا تماشا دیکھنے کو رکتا ہے پھر اپنی ہانکتا ہے اور اگلی گلی میں مڑ جاتا ہے جہاں اسے اور تھڑے مل جاتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ کیا کم ہے کہ یہاں نہ کوئی خالص مذہبی ہے نہ مکمل لبرل۔ نہ کوئی پورا مارکسی ہے نہ اصولی سرمایہ دارانہ نظام کا علمبردار۔ جو جہاں گنجائش پاتا ہے وہیں فٹ ہو جاتا ہے۔ اپنی سوچ کے دھاروں کو ادھار کی موجوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ بیک وقت وہ لبرل ہے اور مذہبی بھی۔ پل بھر کو اس کا مکتب فکر کچھ ہوتا ہے اور اگلے لمحے کچھ اور۔ ایک مکمل کنفیوز ہجوم ہے۔ پرفیکٹ بلائنڈنس۔