سورج جب ڈھل رہا تھا میں نے اسے دیکھا۔ ایک عرصے کے بعد۔ کتنے زمانے بیت گئے۔ ان بیتے زمانوں میں کئی بار بچپن کی یادیں آئیں تو دل کیا کہ اس کی گلی میں جا کر اس کی خیریت معلوم کروں لیکن “ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں بھی !”۔ وه بہت نحیف و ضعیف ہو چکا تھا۔ جھکی ہوئی کمر اور چہرے کی جھڑیاں اس کی غربت زده اور مشکل زندگی کی پوری داستان سنا رہی تھیں۔ ایک عرصے کے بعد وه دِکھا ویسے ہی سلنڈر والی ٹوٹی پھوٹی ریڑھی پر غبارے بیچتا ہوا، چپ چاپ چلتا ہوا۔ یه واحد پھیرے باز تھا جس نے نہ کبھی آواز لگائی نہ سیٹی بجائی، چوبیس سال قبل جب میں گھر کے قریب واقع سکول میں پڑھتا تھا یہ ہمارے سکول کا چوکیدار تھا۔سکول کے بعد یہ گلی گلی پھر کر غبارے بیچتا لیکن چپ چاپ، کوئی دیکھ لے تو دیکھ لے۔ شام ڈھلے میری گلی میں آتا۔ مجھے پہچانتا تو پیار سے سر پر ایک چِت لگاتا اور بولتا “کھیلتے رہتے ہو پڑھتے نہیں “۔میں ماں سے ضد کر کے ایک روپے کے دو غبارے لیتا اور ان کے پھٹنے تک یا چھت سے جا چپکنے تک کھیلتا رہتا۔ایک بار سکول میں بچوں نے جمع ہو کر پوچھا کہ بابا سکول ٹائم کے بعد تم غبارے کیوں بیچتے ہو ؟۔ وه ہنستے ہوئے بولا ” تنخواه کم ہے مجھے اپنا گھر بنانا ہے۔بچوں کی شادیاں کرنی ہیں، تم بچے جب بڑے ہو گے سمجھ جاؤ گے “۔تب ہم ہمیشہ اس کا مزاق ہی اڑاتے کہ چوکیدار بابا غبارے بھی بیچتا ہے۔وقت گزرا ، سکول چھُوٹا۔ پھر اس سے تعلق غباروں کی حد تک ره گیا۔رفتہ رفتہ زندگی مصروف ہوتی گئی، بچہ بڑا ہوتا گیا۔ شامیں کرکٹ کی گراؤنڈ میں گزرنے لگیں۔آواز وه ویسے بھی لگاتا نہیں تھا۔ پھر کالج ، یونیورسٹی ، نوکری ،شادی، گھر بار۔ بیچ کے سالوں میں کئی بار اس کی یاد آئی مگر کہیں نہ وه دِکھا نہ میں نے ڈھونڈا۔ کچھ عرصے پہلے میں نے سمجھ لیا کہ جہاں اپنے سب مر گئے بابا بھی مر گیا ہو گا۔ ایک شام جب سورج ڈھل رہا تھا میں نے اس کو اپنے گھر سے بہت دور ماڈل ٹاون پارک کے اطراف کی سڑک پر دیکھا، رکا، پہچانا، پھر اس کے پاس چلا گیا۔اسے اپنا تعارف کروایا تو وه بس ہنس پڑا ۔کوئی خاص توجہ اس نے نہیں دی۔شاید اتنے سالوں میں وہ بھول چکا تھا۔ میں نے پوچھا “بابا اب کیوں غبارے بیچتے ہو ؟مکان بن گیا ہو گا بچوں کی شادیاں ہو گئی ہوں گی”۔ اس نے نظر اٹھائی اور بولا ” سب کچھ ہو گیا۔اب اپنے گزارے کے لئے بیچتا ہوں ، بچے پڑھ لکھ کے اپنے گھر والے ہو گئے ، بیٹی شادی کر کے حیدرآباد چلی گئی ” اس کے بعد وه چپ ہو گیا۔میں نے اس سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔چلنے لگا تو میں نے اس سے سارے غبارے مانگے۔وه بولا “کتنے بچے ہیں تمہارے ؟”۔میں نے کہا “بہت ہیں۔مہمان بھی آئے ہیں، ان کے بھی بچے ہیں”۔اس سے بارہ سے پندرہ غباروں کا گلدستہ لے کر چلا۔کچھ دور چل کر ماڈل ٹاؤن پارک میں پہنچا تو غبارے چھوڑ دئیے۔غروب آفتاب کے بعد کی سیاہی میں،جب رات پھیلنے لگتی ہے، غبارے دور تک اڑتے گئے پھر اندھیرے میں غائب ہو گئے۔(سنہ 2015 میں لکھا گیا۔ اس کے بعد بابا جی بھی نہیں ملے اور میں نے بھی اپنا شہر مستقل بنیادوں پر چھوڑ دیا۔ کبھی کبھی ماضی سے کچھ چہرے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں تو منیر نیازی کا شعر یاد آ جاتا ہےواپس نہ جا وہاں کہ تیرے شہر میں منیرؔجو جس جگہ پہ تھا وہ وہاں پر نہیں رہا)