Syed Mehdi Bukhari
ہر ذہنی تندرست شخص عشق کرتا ہے اور ہر ذہنی بیمار عاشق شادی کر لیتا ہے۔ عشق کرنے کے لئے شادی کرنا ضروری نہیں ہے مگر شادی کر کے بیگم سے اظہار عشق نہ کرنا اسے بیوہ کرنے کے برابر ہے۔ہمارے درمیانی طبقے میں عشق کو دمشق کا سامنا ہے۔ لوگ عشق کو خلل دماغ سے تعبیر کرتے ہیں مگر میں تو کہتا ہوں عشق عقل کی معراج ہے۔ بھلا عشق سے زیادہ چالاک کون ہو گا کہ موقع ملتے ہی پرائے مال پر اپنا لیبل لگا دیتا ہے۔میرا ماننا ہے انسان جس سے عشق کرے اسی سے نکاح زدہ نہ ہو۔ میرا ایک بہترین و مشہور شاعر دوست ہے(برائے پردہ داری نام لکھنا مناسب نہیں)۔ ایک دعوت میں اس نے اپنی بیگم کا تعارف کرواتے ہوئے کہا ” یہ ہیں میری پہلی اور آخری محبت، میری بیگم” ۔۔۔ سننے والوں میں ایک عجیب قسم کے شخص تھے۔ وہ فوری بولے ” اچھا تو ان کے لبوں کی مٹھاس اور بدن کی حرارت پر آپ نے تفصیلی نظم لکھی تھی!!!” ویسے یہ اسی جانی کا جگر تھا کہ منکوحہ پر ایسی رومینٹک نظم لکھ ماری۔ مگر یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ نظم نکاح سے پہلے لکھی گئی تھی۔ آجکل اس کا رجحان “غزل” کی جانب ہے۔دوستو،عورت کسی رنگ و نسل و زبان و خطے کی ہو، ہوتی وہ اپنی ذات میں بیگم ہی ہے۔ یعنی ایک لڑکی بیاہے جانے کے اگلے روز ہی بیگم کا روپ دھارن کر لیتی ہے۔ یہ عورت کی ان بلٹ صلاحیت ہے۔ محبوبہ جیسے ہی منکوحہ میں ڈھلتی ہے وہ بدل جاتی ہے۔ اس کے اطوار، گفتگو، طرز رہن سہن سب بدل جاتا ہے۔ مانو جیسے تھری سٹار جنرل ترقی پا کر آرمی چیف لگ گیا ہو۔ جیسے ہی وہ چیف لگتا ہے اسے مکمل طاقت کا احساس ہوتا ہے۔ہر بیگم کا کوئی نہ کوئی طنزیہ یا دھمکیہ تکیہ کلام ضرور ہوتا ہے۔ میری زوجہ کے دو ہیں۔ “ شیم آن یو” اور “ ذمہ دار آپ ہوں گے”۔جس دن مجھے بیگم کی زبانی “ شیم آن یو” سننے کو نہ ملے مجھے لگتا ہے جیسے زندگی میں کچھ کمی سی ہے۔ کہیں کچھ مِس ہے۔ لائف ادھوری ہے یا آج کا دن کچھ نارمل نہیں ہے۔اب تو میں خود گاہے گاہے شاعری کرنے لگا ہوں۔ عرض ہےحُسن کی جنّتیں شیم آن یُوعشق کی حیرتیں شیم آن یُوٹیس اٹھتی ہے مسکراتا ہوںدرد کی لذتیں شیم آن یُوہائے اس زندگی میں اس دل پرروز کی آفتیں شیم آن یُودل کا پرسانِ حال کوئی نہیںاس پہ یہ حسرتیں شیم آن یُوعشق کے ساتھ بندگی بھی کرواس قدر فرصتیں شیم آن یُوغم میں مہدیؔ آپ ہنستے ہیںآپ کی ہمتیں شیم آن یُو