دعا عبد کا معبود سے اظہارِ خواہش کا نام ہے۔ یہ عبادت نہیں بندگی ہے۔دعا دنیا کے تمام مذاہب میں مشترکہ عمل ہے۔ خواہ الہامی مذاہب کا ماننے والا ہو یا بُت پرست۔ یہ عمل قدرتی ہے۔ انسان کے جنیاتی کوڈ میں اس کا کوڈ لکھا ہوا ہے۔ ملحد یا ایتھسٹ جو مذاہب کا انکاری ہے حتیٰ کہ وہ بھی دعا کا طلبگار ہوتا ہے گو کہ وہ کسی کو معبود نہیں مانتا نہ ہی ہاتھ اُٹھا کر یا جوڑ کر مانگتا ہے۔ میرا ماننا ہے اور ذاتی تجربہ ہے کہ دعا کی قبولیت کی افضل ترین گھڑی وہ ہے جب دل سے دعا نکل آئے۔ کبھی دل بھر آتا ہے کبھی کسی سبب آنکھ بھر آتی ہے۔ بس اس لمحے جو دل سے نکلتا ہے وہی دعا کی خالص ترین شکل ہے۔ اور وہی لمحہ ہے جو انسان کو خالق سے کنیکٹ کرتا ہے۔سجدہ عبادت ہے۔ سجدہ بھی ہر مذہب کی مشترکہ میراث ہے۔ یہ عبد کا معبود کے سامنے جھکنا ہے۔ اس کی حاکمیت کو تسلیم کرنا ہے اور اسے لائق عبادت گرداننا ہے۔ نماز والے سجدے تو فرض ہیں ناں، وہ تو ڈیوٹی ہے۔ جیسے ڈیوٹی پر رپورٹ بنا کر باس کو بھیجنا ڈیوٹی ہے۔ وہ آپ نے کرنا ہی کرنا ہے۔ میں اس سجدے کی بات کر رہا ہوں جس کے متعلق اقبال نے کیا خوبصورت شعر کہا ہےوہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہےہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجاتوہ سجدہ جس کے واسطے دل تڑپ اُٹھے۔ ذرا سی خوشی مل جائے تو سجدہ شکر۔ ذرا سا ملال آ جائے تو سجدہ۔ کوئی خوبصورت منظر نظر میں پڑے تو قدرت کے سامنے سر خود ہی جھکنا چاہے۔ ایسا سجدہ جس کے کرنے کو وضو ضروری نہیں ہوتا۔ سجدہ بے اختیار۔ میرا ماننا ہے کہ سجدہ تمام عبادات میں افضل ترین عمل ہے۔ اور میرا یہ بھی ماننا ہے کہ سجدہ وہی ہے جو از خود ادا ہو جائے۔ یہ دو عمل ایسے ہیں جو انسان کو بہت سی پریشانیوں سے بچا لیتے ہیں۔ دعا مانگتے رہنا چاہئیے یہ آپ کے بس میں ہے مگر سجدہ بے اختیار آپ کے بس میں نہیں۔ وہ تو اچانک کسی گھڑی کسی سبب خود ہی ہو جاتا ہے اور وہ گھڑی کب آئے کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ ہاں، ایسا بہت بار ہوا ہے کہ سفر کے دوران کسی آبشار کنارے یا جھیل کنارے، کسی منظر کو دیکھ کر ، کسی جگہ سے بحفاظت نکل کر یا کسی مقام پر پہنچ کر از خود سجدہ ادا کرنے کا من کیا ہے۔ مگر اس کا ادا ہونا بھی خالق کی نعمت ہے وگرنہ ہو سکتا ہے کہ کسی کو ساری عمر یہ موقع ہی نہ ملے یا اس سے ہو ہی نہ پائے۔ میں ایک دن اپنے بیٹے کو یہ سمجھا رہا تھا۔ اس کی پری ٹین ایج ہے۔ اس عمر میں بچوں کے پاس مذہبی حوالوں سے سوالات کا ذخیرہ ہوتا ہے جن کے جواب کی تلاش ان کو ہوتی ہے۔ میں نے تو اپنے بچوں کو یہی نصیحت یا وصیت کی ہے ہمیشہ کہ جب گھبرا جاؤ تو دعا مانگو اور جب خوش ہو جاؤ تو سجدہ کرو۔کبھی کہیں کسی کتاب میں پڑھا تھا ۔ اس موضوع پر لکھتے ہوئے یاد آ گیا۔ مجھے کتاب تو یاد نہیں شاید ترمذی یا مسند احمد بن حنبل ہو، بہرحال کتب احادیث میں سے کوئی تھی۔ امام جعفر صادق کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ قرآن پاک میں ہے کہ ابلیس نے کہا میں راہ پر بیٹھ جاؤں گا اور انسان کو آگے ، پیچھے، دائیں بائیں سے گمراہ کروں گا۔ آپ بتائیں جب ابلیس چاروں طرف موجود ہے تو انسان اس کے حملے سے کیسے بچ سکتا ہے ؟۔ امام جعفر صادق نے جواب دیا “ اس نے تو چار سمتیں بتائیں ہیں ناں ؟ سمتیں تو خدا نے چھ بنائیں ہیں۔ اوپر بھی ایک سمت ہے، نیچے بھی ایک سمت ہے۔ دعا میں ہاتھ اُٹھا دو گے تب بھی بچ جاؤ گے۔ سجدے میں سر جھکا دو گے تب بھی بچ جاؤ گے۔”یہ تو خیر مذہبی حوالہ دے دیا۔ میں سچ بتاؤں تو میں معاملات کو مذہبی حوالوں سے زیادہ منطقی حوالے سے دیکھتا ہوں اور مذہب میں بھی منطق تلاش کرتا ہوں گو کہ مذہب کوئی بھی ہو وہ ابسلیوٹ سرنڈر یا تسلیم کا نام ہے۔ ایمان ہوتا ہی وہ ہے جو نا نظر آنے والی نہ چھوئے جانے والی باتوں پر ہو یعنی جو انسانی حواس خمسہ سے باہر ہو۔اس بحث سے قطع نظر انسانی عقل غیب پر ایمان رکھتے ہوئے بھی منطق کی جانب راغب ہوتی ہے۔ منطق یہی کہتی ہے کہ یہ سارا ویل بیلنسڈ اور زیرو ایرر کائناتی سسٹم حادثاتی طور پر نہیں بن سکتا۔ یہ evolution کا پراسس بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ گریویٹی رفتہ رفتہ وجود میں آئی ہو پہلے نہ ہو۔یا سیارے پہلے بے مدار ہوں اور پھر رفتہ رفتہ انہوں نے اپنی راہ خود معین کر لی ہو۔ لہٰذا کوئی سپر پاور ہے۔ اور اس سپر پاور سے کنیکٹ ہونے کے دو ہی راستے ہو سکتے ہیں۔ یا دعا ہے یا سجدہ۔